حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ نہیں مجبوری کی دستاویز ہے، جس کے اثرات مستقبل قریب میں واضح ہو جائیں گے۔ استعماری طاقتیں جہاں بھی جبراً قبضہ کرتی ہیں، پھر وہاں کی عوام کو رسوا اور بڑے مسائل پیدا کرکے فرار ہو جاتی ہیں، استعماریت کسی کی دوست نہیں بلکہ مفادات ان کی ترجیح ہوتے ہیں، پائیدار امن کے لئے تمام فریقین اعتماد پر مبنی مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھیں گے تو ہی پائیدار امن قائم ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے حالیہ افغان صورتحال، دوحہ معاہدہ سمیت خطے کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ مجبوری کی دستاویز ہے، جسے امریکہ امن معاہدے کے طور پر لہرا رہا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا قابض افواج اور مقبوضہ عوام کے درمیان معاہدہ ہوسکتا ہے؟ کیا اس معاہدہ میں تمام فریقین کا نکتہ نظر سمجھا گیا یا انہیں اعتماد میں لیا گیا؟ اگر ایسا ہوا تو پھر فوراً اختلاف رائے کی فضا کیوں بن گئی۔؟
علامہ سید ساجد علی نقوی کا مزید کہنا تھا کہ استعماری طاقتیں جہاں بھی جبراً قابض ہوتی ہیں پھر وہاں کی عوام کو رسوا اور بڑے مسائل پیدا کرکے راہ فرار اختیار کرتی ہیں، ایسا ہی کچھ تقسیم برصغیر کے وقت ہوا اور مسئلہ کشمیر اس وقت جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مسئلہ اور انسانی المیہ کا روپ دھار چکا، استعماریت کسی کی دوست نہیں بلکہ مفادات ان کی ترجیح اور وہ اپنے مکروہ عزائم کی تابع ہوا کرتی ہے۔ ہم اپنے پڑوسی ملک افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، کیونکہ افغانستان میں جنگ و انارکی کے اثرات پاکستان سمیت پورے خطے پر پڑے اور گذشتہ 4 دہائیوں سے یہ خطہ امن و آشتی کو ترس رہا ہے، تمام سنجیدہ فکر شخصیات اس صورتحال پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ خطے میں پائیدار امن کے لئے ضروری ہے کہ تمام افغان فریقین اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے، باہمی مذاکرات کئے جائیں، تبھی افغانستان میں امن قائم ہوگا۔
News ID: 359758
3 مارچ 2020 - 22:06
- پرنٹ
حوزہ/علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ نہیں مجبوری کی دستاویز ہے، جس کے اثرات مستقبل قریب میں واضح ہو جائیں گے۔ استعماری طاقتیں جہاں بھی جبراً قبضہ کرتی ہیں، پھر وہاں کی عوام کو رسوا اور بڑے مسائل پیدا کرکے فرار ہو جاتی ہیں، استعماریت کسی کی دوست نہیں بلکہ مفادات ان کی ترجیح ہوتے ہیں.